M.A. (MAUD)
MUD - 007
(Urdu Ghazal)
اردو غزل
IGNOU Solved Assignment (July 2024 & January 2025 Session)
سوال نمبر۱: نظم کی تعریف اور اس کے آغاز و ارتقا پر ایک مضمون لکھئے۔
جواب: نظم کی تعریف، آغاز اور ارتقا
نظم اردو ادب کی ایک اہم صنف ہے جو جذبات، خیالات اور تجربات کے اظہار کا مؤثر ذریعہ ہے۔ یہ نثر کے مقابلے میں زیادہ مؤثر، جامع اور خوبصورت انداز میں جذبات کو بیان کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ نظم میں موسیقیت، حسن اور خیالات کی گہرائی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ شاعری کی وہ قسم ہے جس میں شاعر کسی خاص موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے اور الفاظ کو خاص ترتیب میں پروتا ہے تاکہ ایک خوبصورت شعری نمونہ تشکیل پائے۔
نظم کی تعریف
لغوی اعتبار سے نظم کا مطلب “ترتیب دینا” یا “منظم کرنا” ہے۔ ادبی لحاظ سے نظم ایک ایسی صنف ہے جس میں خیالات اور احساسات کو شعری قالب میں ڈھالا جاتا ہے۔ نظم کا سب سے اہم عنصر اس کا آہنگ یا موسیقیت ہے، جو اسے نثر سے ممتاز کرتی ہے۔ نظم آزاد بھی ہو سکتی ہے اور پابند بھی، لیکن ہر صورت میں اس کا مقصد قاری کے دل و دماغ پر اثر ڈالنا ہوتا ہے۔
نظم کا آغاز
نظم کی روایت کا آغاز قدیم زمانے سے ہوا۔ ہر زبان میں شاعری کی ابتدا نظموں ہی سے ہوئی۔ اردو زبان میں نظم کی باقاعدہ ابتدا دکن سے ہوئی جہاں محمد قلی قطب شاہ اور ولی دکنی نے ابتدائی نظمیں تخلیق کیں۔ اس دور میں نظمیں زیادہ تر مذہبی یا عشقیہ موضوعات پر مبنی ہوتی تھیں۔ بعد ازاں شمالی ہند میں اردو نظم کو فروغ ملا، جہاں میر تقی میر اور سودا جیسے شعرا نے غزل کے ساتھ نظم کی صنف کو بھی اپنایا۔
نظم کا ارتقا
اردو نظم کا ارتقا مختلف ادوار سے گزرتا رہا۔ ہر دور میں نظم کی ساخت، موضوعات اور اسلوب میں تبدیلیاں آتی رہیں۔ ذیل میں نظم کے ارتقا کے اہم مراحل بیان کیے جا رہے ہیں:
دکنی دور
دکنی ادب کے ابتدائی شعرا نے مذہبی، عشقیہ اور داستانوی موضوعات پر نظمیں لکھیں۔ اس دور کی نظمیں سادہ زبان اور روایتی موضوعات پر مبنی ہوتی تھیں۔
کلاسیکی دور
یہ دور شمالی ہندوستان میں اردو ادب کے فروغ کا دور تھا۔ میر تقی میر، سودا اور نظیر اکبرآبادی جیسے شعرا نے نظم کے موضوعات کو وسعت دی۔ خاص طور پر نظیر اکبرآبادی نے عوامی مسائل اور فطرت کے مناظر کو نظم کا موضوع بنایا۔
سرسید تحریک کا دور
انیسویں صدی میں سرسید احمد خان کی تحریک نے اردو ادب میں حقیقت پسندی اور اصلاحی رجحانات کو فروغ دیا۔ اس دور میں الطاف حسین حالی اور محمد حسین آزاد نے نظم کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ حالی کی “مسدس حالی” اردو نظم کا ایک شاہکار ہے، جس میں قوم کے عروج و زوال کو موضوع بنایا گیا ہے۔
رومانوی دور
انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں رومانوی رجحانات نے زور پکڑا۔ اس دور میں علامہ اقبال، اختر شیرانی اور جوش ملیح آبادی جیسے شعرا نے نظمیں تخلیق کیں۔ علامہ اقبال کی نظموں میں ملی اور فلسفیانہ موضوعات نمایاں ہیں، جبکہ اختر شیرانی نے حسن و عشق کے جذبات کو نظم کا حصہ بنایا۔
ترقی پسند تحریک
بیسویں صدی کے وسط میں ترقی پسند تحریک نے اردو ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ فیض احمد فیض، سردار جعفری اور مجاز لکھنوی جیسے شعرا نے نظم کو انقلاب اور سماجی مسائل کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔
جدید دور
آج کا دور جدید رجحانات کا حامل ہے۔ آزاد نظم اور نثری نظم نے روایت سے ہٹ کر نئی جہتیں پیدا کی ہیں۔ موجودہ دور کے شعرا ذاتی تجربات، سماجی مسائل اور فلسفیانہ خیالات کو نظم کا حصہ بنا رہے ہیں۔
نظم کی اقسام
نظم کی مختلف اقسام ہیں جن میں ہر ایک کی اپنی خصوصیات ہیں:
• مسدس: چھ مصرعوں پر مشتمل نظم، جیسے حالی کی “مسدس حالی”۔
• مرثیہ: کسی کے انتقال پر کہی جانے والی نظم، جیسے میر انیس اور دبیر کے مراثی۔
• قصیدہ: تعریف یا ہجو پر مبنی نظم۔
• آزاد نظم: جس میں ردیف و قافیہ کی پابندی نہیں ہوتی، لیکن آہنگ برقرار رہتا ہے۔
• نثری نظم: جس میں شاعری کی تمام روایتی پابندیاں ختم کر دی جاتی ہیں۔
اختتامیہ
اردو نظم نے اپنے آغاز سے لے کر آج تک مختلف ادوار میں ترقی کی ہے اور ہر دور میں اسے نئے موضوعات اور اسالیب سے آراستہ کیا گیا ہے۔ نظم آج بھی اردو ادب کی ایک مؤثر صنف ہے جو جذبات، خیالات اور تجربات کو خوبصورتی سے پیش کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
سوال نمبر ۲: الطاف حسین حالی کی حیات وشخصیت اور اس کی نظم نگاری سے متعلق بحث کیجئے
جواب: الطاف حسین حالی: حیات، شخصیت اور نظم نگاری
الطاف حسین حالی اردو ادب کے ممتاز شعرا، نقاد اور نثر نگار تھے جنہوں نے اردو ادب میں اصلاحی اور قومی رجحانات کو فروغ دیا۔ حالی نے نہ صرف شاعری میں بلکہ تنقید اور سوانح نگاری میں بھی اہم خدمات انجام دیں۔ وہ اردو کے اولین ترقی پسند شعرا میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی شاعری کو قوم کی اصلاح اور بیداری کا ذریعہ بنایا۔
حیات
الطاف حسین حالی 1837ء میں پانی پت (ہریانہ) میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک علمی خاندان سے تھا۔ بچپن ہی میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، جس کے بعد ان کی پرورش ان کی والدہ نے کی۔ حالی نے ابتدائی تعلیم قرآن پاک سے حاصل کی اور بعد میں فارسی اور عربی زبان و ادب میں مہارت حاصل کی۔
1857ء کے غدر کے بعد حالی دہلی آئے اور ذوق جیسے استاد کی محفل میں شامل ہوئے۔ اس دوران حالی نے شاعری کی طرف مائل ہو کر غزل گوئی کا آغاز کیا، لیکن بعد میں اصلاحی و قومی شاعری کو اپنا مقصد بنا لیا۔ وہ سرسید احمد خان کی اصلاحی تحریک سے متاثر ہو کر علی گڑھ تحریک سے وابستہ ہو گئے۔
حالی نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ علمی و ادبی خدمات میں گزارا۔ 1914ء میں وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ان کا ادبی ورثہ آج بھی اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہے۔
شخصیت
حالی کی شخصیت نہایت سادہ، سنجیدہ اور اصلاحی خیالات کی حامل تھی۔ وہ نرم گفتار اور ملنسار تھے اور ہمیشہ قومی و سماجی اصلاح کے لیے کوشاں رہے۔ ان کی شاعری ان کی شخصیت کی عکاسی کرتی ہے جو اخلاقی قدروں، قومی بیداری اور انسانی محبت کے جذبات سے بھرپور ہے۔
نظم نگاری
حالی نے اردو نظم کو ایک نئی جہت دی۔ ان کی نظموں میں قوم کے زوال، اخلاقی بگاڑ، اور معاشرتی مسائل کے موضوعات نمایاں ہیں۔ وہ پہلے شاعر تھے جنہوں نے شاعری کو محض تفریح کا ذریعہ سمجھنے کے بجائے اسے اصلاحی پیغام رسانی کا وسیلہ بنایا۔
مسدس حالی
حالی کا سب سے بڑا کارنامہ ان کی مشہور نظم “مسدس مد و جزر اسلام” ہے، جو “مسدس حالی” کے نام سے مشہور ہے۔ یہ نظم قوم کے عروج و زوال کی داستان بیان کرتی ہے اور مسلمانوں کو بیداری، اتحاد اور ترقی کی دعوت دیتی ہے۔ حالی نے اس نظم میں مسلمانوں کی زبوں حالی کو دل سوز انداز میں پیش کیا اور انہیں ان کے شاندار ماضی کی یاد دلائی۔ اس نظم کو اردو ادب میں خاص اہمیت حاصل ہے۔
دیگر نظمیں
حالی کی دیگر نظموں میں بھی قومی، سماجی اور اخلاقی موضوعات نمایاں ہیں۔ ان کی مشہور نظموں میں “حب الوطنی”، “برکھا رت” اور “چپ کی داد” شامل ہیں۔ حالی کی نظموں میں فطرت کی عکاسی اور انسان دوستی کے جذبات بھی نظر آتے ہیں۔
نظم نگاری کی خصوصیات
1. اصلاحی رجحانات:
حالی کی نظموں میں اصلاحی پہلو نمایاں ہیں۔ وہ قوم کو اخلاقی، سماجی اور مذہبی اصلاح کا درس دیتے ہیں۔
2. قومی بیداری:
حالی کی شاعری میں مسلمانوں کو بیدار کرنے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا پیغام ہے۔
3. سیدھا اور سادہ اسلوب:
حالی نے پیچیدہ الفاظ کے بجائے سادہ زبان اور عام فہم انداز اپنایا تاکہ ان کا پیغام ہر فرد تک پہنچ سکے۔
4. حسن بیان:
حالی کی نظموں میں ایک دلکش آہنگ اور موسیقیت پائی جاتی ہے جو قاری کے دل پر اثر ڈالتی ہے۔
5. فطرت نگاری:
حالی نے قدرتی مناظر کو بھی اپنی نظموں کا موضوع بنایا، جس سے ان کی شاعری میں تازگی اور خوبصورتی پیدا ہوئی۔
حالی کی نظم نگاری کے اثرات
حالی کی نظم نگاری نے اردو ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان کی شاعری نے اردو نظم کو فکری وسعت دی اور اسے محض عشقیہ موضوعات سے نکال کر قومی و سماجی مسائل کی طرف مائل کیا۔ حالی کی مسدس نے نہ صرف مسلمانوں کے دلوں میں بیداری پیدا کی بلکہ
سوال نمبر ۳: اردو نظم اور تحریکات (ترقی پسند تحریک، حلقہ ارباب ذوق اور جدیدیت پر ایک مضمون لکھیے۔
جواب: اردو نظم اور تحریکات: ترقی پسند تحریک، حلقہ اربابِ ذوق اور جدیدیت
اردو ادب کی تاریخ میں نظم کو مختلف تحریکات کے ذریعے فکری وسعت اور فنی نکھار حاصل ہوا۔ ان تحریکات نے نظم کو محض جذباتی یا عشقیہ موضوعات سے نکال کر قومی، سماجی، انقلابی اور جدید موضوعات سے روشناس کرایا۔ ترقی پسند تحریک، حلقہ اربابِ ذوق، اور جدیدیت نے اردو نظم کے اسلوب، موضوعات اور تکنیک میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کیں۔
ترقی پسند تحریک اور اردو نظم
ترقی پسند تحریک کا آغاز 1936ء میں ہوا جب لکھنؤ میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا قیام عمل میں آیا۔ اس تحریک کا مقصد ادب کو سامراجی، جاگیرداری اور سرمایہ داری کے خلاف ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا تھا۔ اس تحریک نے اردو نظم کو ایک نیا شعور اور سمت عطا کی۔
اہم خصوصیات
• سماجی انصاف، مساوات، اور طبقاتی جدوجہد کے موضوعات
• معاشرتی ناانصافی کے خلاف احتجاج
• انسان دوستی اور امن کا پیغام
• انقلابی جذبات اور عوامی مسائل کی عکاسی
اہم شعرا
فیض احمد فیض، سردار جعفری، مجاز لکھنوی، علی سردار جعفری، اور ساحر لدھیانوی اس تحریک کے اہم شعرا تھے۔ فیض کی نظموں میں انقلاب اور محبت کا امتزاج نمایاں ہے، جبکہ مجاز نے نوجوانوں کے خوابوں اور خواہشات کو اپنی نظموں میں بیان کیا۔
اثر
ترقی پسند تحریک نے اردو نظم کو جدوجہد، سماجی شعور اور انقلابی فکر کا حامل بنایا۔ اس نے شاعری کو ایک وسیع تر سماجی و سیاسی تناظر فراہم کیا۔
حلقہ اربابِ ذوق اور اردو نظم
حلقہ اربابِ ذوق کا قیام 1939ء میں لاہور میں عمل میں آیا۔ یہ تحریک ترقی پسند تحریک کے ردعمل کے طور پر سامنے آئی۔ حلقہ اربابِ ذوق کے ادیبوں اور شعرا نے ادب کو نظریاتی اور سیاسی قید سے آزاد رکھنے کا نعرہ بلند کیا اور فن برائے فن کے نظریے کو فروغ دیا۔
اہم خصوصیات
• جمالیاتی اقدار اور فنی لطافت پر زور
• موضوعات کی بجائے اظہار کے اسلوب کو اہمیت دینا
• علامت نگاری اور استعاراتی اسلوب کا استعمال
اہم شعرا
میراجی، ن۔ م۔ راشد، اور قیوم نظر اس تحریک کے نمایاں شعرا تھے۔ میراجی نے اردو نظم میں علامتی اور نفسیاتی پہلوؤں کو شامل کیا، جبکہ ن۔ م۔ راشد نے آزاد نظم کو فروغ دیا۔
اثر
حلقہ اربابِ ذوق نے اردو نظم کو فنی اور اسلوبیاتی جہات میں نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ اس تحریک نے نظم کو داخلی کیفیات اور جمالیاتی اظہار کا ذریعہ بنایا۔
جدیدیت اور اردو نظم
جدیدیت بیسویں صدی کے وسط میں اردو ادب میں ایک فکری و فنی رجحان کے طور پر ابھری۔ یہ تحریک عالمی ادب میں جدیدیت کے اثرات کا نتیجہ تھی اور اس نے ادب کو روایت سے ہٹ کر نئی فکری و اسلوبی جہات عطا کیں۔
اہم خصوصیات
• فرد کی تنہائی اور وجودی بحران کا اظہار
• روایتی بیانیے سے انحراف
• علامت نگاری اور تجریدی اسلوب
• شعور کی رو (stream of consciousness) کا استعمال
اہم شعرا
شمس الرحمان فاروقی، ظفر اقبال، افتخار جالب، اور سلیم احمد جدیدیت کے نمایاں شعرا میں شامل ہیں۔ ان شعرا نے اردو نظم میں فکری گہرائی اور اسلوبی تنوع پیدا کیا۔
اثر
جدیدیت نے اردو نظم کو فلسفیانہ فکر اور تجریدی اسلوب سے روشناس کرایا۔ اس تحریک نے نظم کو عالمی ادب کے رجحانات سے ہم آہنگ کیا اور اسے نئے فکری و اسلوبی تجربات کا حامل بنایا۔
اختتامیہ
اردو نظم کی تاریخ مختلف تحریکات سے عبارت ہے جنہوں نے اس صنف کو مختلف فکری، جمالیاتی اور فنی پہلوؤں سے مالا مال کیا۔ ترقی پسند تحریک نے نظم کو انقلابی شعور عطا کیا
سوال نمبر ۴: علامہ شبلی نعمانی کی حیات و شخصیت اور نصاب میں شامل نظم “شہر آشوب اسلام” کا تجزیہ کیجیے۔
جواب: علامہ شبلی نعمانی: حیات، شخصیت اور “شہر آشوب اسلام” کا تجزیہ
علامہ شبلی نعمانی اردو اور فارسی ادب کے بلند پایہ عالم، مورخ، نقاد اور شاعر تھے۔ انہوں نے اردو ادب اور اسلامی علوم میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ان کی شخصیت علمی، تحقیقی اور اصلاحی خصوصیات کی حامل تھی۔ ان کی نظم “شہر آشوب اسلام” اردو نظم کے ذخیرے میں ایک اہم اضافہ ہے جس میں اسلامی دنیا کے زوال اور مسلمانوں کی پستی کا دردناک منظر پیش کیا گیا ہے۔
حیات
شبلی نعمانی 3 جون 1857ء کو اعظم گڑھ کے قصبے بندول میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شیخ حبیب اللہ ایک متمول زمیندار تھے۔ شبلی نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور پھر عربی، فارسی اور فقہ میں مہارت حاصل کی۔ ان کی اعلیٰ علمی صلاحیتوں نے انہیں دیگر علما سے ممتاز کیا۔
شبلی نے علی گڑھ میں سرسید احمد خان کی تحریک سے متاثر ہو کر جدید تعلیم اور مسلمانوں کی اصلاح کے لیے کام کیا۔ وہ دار العلوم ندوۃ العلماء سے بھی وابستہ رہے اور یہاں انہوں نے علمی و تحقیقی سرگرمیوں کو فروغ دیا۔ انہوں نے “سیرت النبی”، “الفاروق” اور “المامون” جیسی شہرہ آفاق کتابیں لکھیں جو اسلامی تاریخ کا قیمتی سرمایہ ہیں۔
شبلی 18 نومبر 1914ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ان کا علمی و ادبی ورثہ آج بھی زندہ ہے۔
شخصیت
شبلی نعمانی کی شخصیت ہمہ گیر تھی۔ وہ ایک بلند پایہ مورخ، شاعر، فلسفی اور اسلامی علوم کے ماہر تھے۔ ان کے خیالات میں سرسید احمد خان کے عقلی اور اصلاحی رجحانات کا اثر نمایاں تھا۔ وہ جدید اور قدیم علوم کے درمیان ہم آہنگی کے قائل تھے اور مسلمانوں کی تعلیمی و معاشرتی ترقی کے لیے کوشاں رہے۔
شبلی کی شاعری میں بھی ان کے فکری رجحانات جھلکتے ہیں۔ ان کی نظمیں قومی، مذہبی اور اصلاحی جذبات سے بھرپور ہیں۔
“شہر آشوب اسلام” کا تجزیہ
نظم کا پس منظر
“شہر آشوب اسلام” علامہ شبلی نعمانی کی وہ نظم ہے جس میں انہوں نے مسلمانوں کی زبوں حالی، اخلاقی و معاشرتی پستی اور اسلامی دنیا کے زوال کو موضوع بنایا ہے۔ یہ نظم اس وقت کے سیاسی، سماجی اور مذہبی حالات کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔
موضوع
نظم کا مرکزی موضوع مسلمانوں کا زوال اور ان کی عظمت رفتہ کا ماتم ہے۔ شبلی نے اس نظم میں مسلمانوں کی حالت زار پر گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے اور ان کی غفلت، علم دشمنی اور باہمی اختلافات کو ان کے زوال کی بنیادی وجوہات قرار دیا ہے۔
شاعری کے فنی محاسن
1. حسنِ بیان:
شبلی نے نہایت دلکش انداز میں مسلمانوں کی پستی اور ان کے عروج کے تقابل کو پیش کیا ہے۔
2. جذبات کی فراوانی:
نظم میں شبلی کے دل کا درد اور امت مسلمہ کے لیے ان کا خلوص جھلکتا ہے۔
3. تشبیہات و استعارات:
نظم میں اسلامی دنیا کے زوال کو بیان کرنے کے لیے دلکش تشبیہات اور استعارات کا استعمال کیا گیا ہے۔
4. نظم کی ساخت:
نظم میں روایت سے ہٹ کر اصلاحی پیغام اور فکری گہرائی موجود ہے جو اسے ایک منفرد حیثیت عطا کرتی ہے۔
اہم موضوعات اور پیغامات
1. اسلامی تعلیمات سے دوری:
شبلی نے مسلمانوں کی موجودہ حالت کو اسلامی تعلیمات سے دوری کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
2. علم کی اہمیت:
شبلی نے مسلمانوں کو علم و تحقیق کی طرف رجوع کرنے کی تلقین کی ہے کیونکہ یہی ترقی کا واحد راستہ ہے۔
3. اتحاد کی ضرورت:
نظم میں مسلمانوں کو باہمی اختلافات ترک کرکے اتحاد و یگانگت اختیار کرنے کی نصیحت کی گئی ہے۔
4. عظمت رفتہ کی یاد:
شبلی نے مسلمانوں کو ان کے شاندار ماضی کی یاد دلاتے ہوئے دوبارہ عروج حاصل کرنے کی دعوت دی ہے۔
اسلوب
شبلی کا اسلوب سادہ مگر پراثر ہے۔ ان کی زبان میں سلاست اور روانی ہے جو قاری کے دل پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ انہوں نے اپنی نظم کو جذباتی اور فکری دونوں پہلوؤں سے مزین کیا ہے۔
اختتامیہ
“شہر آشوب اسلام” علامہ شبلی نعمانی کی ایک شاہکار نظم ہے جو مسلمانوں کے لیے نہ صرف ایک انتباہ ہے بلکہ ان کے زوال سے نکلنے کا راستہ بھی دکھاتی ہے۔ شبلی نعمانی کی حیات و شخصیت اور ان کی یہ نظم اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں جو آنے والی نسلوں کے لیے فکری رہنمائی کا ذریعہ بنی رہیں گی۔
سوال نمبر ۵: اسماعیل میرٹی کی حیات و شخصیت اور نظم نگاری کی خصوصیات بیان کیجئے
جواب: اسماعیل میرٹھی: حیات، شخصیت اور نظم نگاری کی خصوصیات
اردو ادب میں اسماعیل میرٹھی کو تعلیمی، اخلاقی اور اصلاحی شاعری کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ ان کا کلام سادگی، نصیحت اور بچوں کے لیے دلچسپ موضوعات سے بھرپور ہے۔ انہوں نے اردو نظم نگاری میں اصلاحی رجحانات کو فروغ دیا اور بچوں کی تعلیم و تربیت کو اپنی شاعری کا محور بنایا۔
حیات
اسماعیل میرٹھی 1844ء میں میرٹھ، بھارت کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا مکمل نام محمد اسماعیل تھا لیکن وہ اپنے آبائی علاقے کی نسبت سے “میرٹھی” کہلائے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر میرٹھ میں حاصل کی جہاں انہوں نے عربی، فارسی اور اردو زبان میں مہارت حاصل کی۔
بعد ازاں وہ علی گڑھ میں سرسید احمد خان کے قائم کردہ تعلیمی ادارے سے وابستہ ہوئے اور اردو زبان کی تدریس کے ساتھ ساتھ نصابی کتابوں کی تدوین میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ وہ علی گڑھ تحریک سے متاثر تھے اور جدید تعلیم کو فروغ دینے میں پیش پیش رہے۔
1917ء میں اسماعیل میرٹھی کا انتقال ہوا لیکن ان کی تعلیمی اور ادبی خدمات آج بھی زندہ ہیں۔
شخصیت
اسماعیل میرٹھی کی شخصیت نہایت سادہ، متوازن اور اصلاحی رجحانات کی حامل تھی۔ وہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے گہری دلچسپی رکھتے تھے اور انہیں اخلاقی اقدار سے روشناس کرانے کے لیے شاعری کو ایک مؤثر ذریعہ سمجھتے تھے۔ ان کی زندگی سرسید احمد خان کے خیالات سے متاثر تھی اور وہ تعلیمی و اصلاحی تحریکات میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے۔
نظم نگاری کی خصوصیات
1. تعلیمی اور اخلاقی موضوعات
اسماعیل میرٹھی کی نظموں کا اہم موضوع تعلیم، اخلاقی تربیت اور انسانی اقدار کا فروغ تھا۔ ان کی نظمیں بچوں کو سچائی، دیانت داری، محنت اور حب الوطنی جیسے اوصاف اپنانے کا درس دیتی ہیں۔
2. بچوں کے لیے شاعری
اردو ادب میں بچوں کے لیے شاعری کا باقاعدہ آغاز اسماعیل میرٹھی نے کیا۔ ان کی نظمیں بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق سادہ اور دلچسپ ہوتی ہیں۔ ان میں فطرت کے مناظر، جانوروں کی کہانیاں اور تعلیمی پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔
3. سادگی اور سلاست
اسماعیل میرٹھی کی شاعری کا سب سے بڑا وصف اس کی سادگی اور سلاست ہے۔ انہوں نے پیچیدہ الفاظ اور مشکل تراکیب سے گریز کیا تاکہ ان کی نظمیں ہر عمر کے قارئین کے لیے قابلِ فہم ہوں۔
4. فطرت نگاری
ان کی نظموں میں فطرت کے حسین مناظر، موسموں کی تبدیلی اور قدرت کے عجائبات کا خوبصورت بیان ملتا ہے۔ یہ پہلو بچوں کی جمالیاتی حس کو اجاگر کرتا ہے۔
5. اصلاحی رجحانات
اسماعیل میرٹھی نے اپنی شاعری کو اصلاحِ معاشرت کا ذریعہ بنایا۔ وہ معاشرتی برائیوں کے خلاف آواز اٹھاتے اور سماجی اقدار کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
6. موسیقیت اور روانی
ان کی نظموں میں ایک خاص قسم کی موسیقیت اور روانی پائی جاتی ہے جو بچوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ یہ خصوصیت ان کی نظموں کو یاد کرنے اور دہرانے میں آسان بناتی ہے۔
مشہور نظمیں
• “پھولوں کا گہنا”
• “نظم بہار”
• “علم کی فضیلت”
• “وقت کی قدر”
ان نظموں میں فطرت کے حسن، علم کی اہمیت اور وقت کے صحیح استعمال جیسے موضوعات پر زور دیا گیا ہے۔
اسماعیل میرٹھی کا ادبی مقام
اسماعیل میرٹھی نے اردو نظم نگاری میں اہم خدمات انجام دیں۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے بچوں کے ادب کو شعری رنگ دیا اور اسے ایک معتبر حیثیت عطا کی۔ ان کی شاعری بچوں کی تربیت کے لیے آج بھی ایک اہم ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔
اختتامیہ
اسماعیل میرٹھی کی حیات و شخصیت اور ان کی نظم نگاری اردو ادب کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔ ان کی نظمیں نہ صرف بچوں کے لیے تربیتی مواد فراہم کرتی ہیں بلکہ معاشرے کو بھی اخلاقی اور اصلاحی پیغام دیتی ہیں۔ ان کی شاعری کی سادگی، فطرت نگاری اور اصلاحی رجحانات انہیں اردو ادب میں ایک منفرد مقام عطا کرتے ہیں۔
Mulsif Publication
Website:- https://www.mulsifpublication.in
Contact:- tsfuml1202@gmail.com
No comments:
Post a Comment